بجھا سا دل لیے اس کارواں کو ڈھونڈتا ہے کیوں
وہ کب کا جا چکا اب راستوں کو دیکھتا ہے کیوں
نہ گزرے گا یہاں سے قافلہ بچھڑا ہوا تیرا
پریشاں حال بیٹھا آج اس کو سوچتا ہے کیوں
چمن سے جو بچھڑ جائے بکھر جاتا ہے وہ غنچہ
بچھڑ کے آشیاں سے آشیاں کو ڈھونڈتا ہے کیوں
پڑے پیروں میں چھالے پھر بھی منزل نہ ملی تجھ کو
نہیں جس کا پتا پھر وہ پہیلی بوجھتا ہے کیوں
وہ بیتے دن یہاں اب یاد بن کے رہ گئے زاہد
جنھیں تالے لگے ماضی کے ان میں جھانکتا ہے کیوں