ہجوم شوق میں اندر کا حال میں نے دیا
اسے یہ زیست کا سارا کمال میں نے دیا
جو اس کی آنکھوں میں جلتا ہے زندگی کا دیا
یہ روشنی کا اسے بھر کے تھال میں نے دیا
تمام زیست گزاری ہے اس کی خدمت میں
یہ اخیتار یہ جاہ و جلال میں نے دیا
میں جس کے واسطے زندہ رہی زمانے میں
اسے بھی خانہ ،دل سے نکال میں نے دیا
بڑے پیار سے لوٹا ہے اس نے رستے میں
بڑے خلوص سے لوگوں کا حال میں نے دیا
میں اپنی سوچ سے کیسے اسے رہائی دوں
یہ بوجھ اپنی جوانی پہ ڈال میں نے دیا
اسے جہاں میں کوئی پوچھتا نہیں وشمہ
اسے یہ رتبہُ حسن و جمال میں نے دیا