پسینے میں لپٹے تھکاوٹ سے چور
زمانے کی رنگین زلفوں سے دور
نہ تن پہ سجاوٹ نہ چہرے پہ نور
نہ باہر کہیں چین نہ گھر میں سرور
ہے بچپن کیا اور جوانی ہے کیا
خوشی کیا ہے اور کامرانی ہے کیا
حقیقت ہے کیا اور معانی ہے کیا
انہیں کیا پتہ زندگانی ہے کیا
یہ جیون کا پہیہ گھماتے ہوئے
یہ سڑکوں پہ کاغذ اٹھاتے ہوئے
یہ جوتوں پہ پالش چلا تے ہوئے
یہ ٹائروں کو پنکچر لگاتے ہوئے
یہ معصوم چہرے یہ نازک سے ہاتھ
ہے تنگ ان پہ کتنی تیری کائنات
کہوں کیا میں اے رب ارض و سما
ان کو دیکھوں تو دل پہ گزرتی ہے کیا