جو بھی تم پر نثار رہتے ہیں
مست و بے خُود فگار رہتے ہیں
جو نسیمِ سحر ہو یادوں کی
ہم خزاں میں بہار رہتے ہیں
تیری قدرت کے منکرین آخر
دین و دنیا میں خوار رہتے ہیں
کیا بتائیں سرِ مقدر پر
حادثے ہی سوار رہتے ہیں
ہو ملاقات جن سے یادوں میں
کب بھلا دُور پار رہتے ہیں
جب بھی محوِ خیال رہتے ہیں
مے پپئے بن خمار رہتے ہیں
تُم سخی ہو شہا سو بے کس بھی
نادرِ روزگار رہتے ہیں
تیری تائید ہے عدو میرے
کیسے لاچار و عار رہتے ہیں
جلد از لیجئے خبر میری
جا بجا راہ مار رہتے ہیں
جو ہیں مجذوبِ آستاں اُن پر
راز کیا آشکار رہتے ہیں
دستِ جُود و کرم کی خیر جنیدؔ
ہم سدا قرض دار رہتے ہیں