جو بھی کوئے بتاں سے نکلے گا
وه تو کون و مکاں سے نکلے گا
پھر کہاں پر اماں ملے اُس کو
جو تیرے آستاں سے نکلے گا
جب سنوارے گا زلف یار اپنی
چاند کب آسماں سے نکلے گا
جام کی تلخیاں اگر نہ سہی
درد سوزِ نہاں سے نکلے گا
زندگی تیرے حادثوں سے بھلا
کوئی بچ کر کہاں سے نکلے گا
درد حصہ ہے زیست کا ارسہؔ
کب میری داستاں سے نکلے گا