جو بے شمار بھید سینے میں سمائے بیٹھا ہوں
وعدے جو کچھ میں نبھائے بیٹھا ہوں
وہ ہیں کے میرے نام سے آشنا تک نہی
اور میں دل ہی دل میں انہیں اپنا بنائے بیٹھا ہوں
پھیلانا چاہتا ہوں پر اپنے فضاوں میں
پر دل کو غم آفاق میں الجھائے بیٹھا ہوں
خیالوں میں ان کے حضور کر چکا میں اعتراف محبت
پر وقت وصل میں ان کے روبرو شرمائے بیٹھا ہوں
،اب تو ناگزیر ہیں اعتراف محبت
دنیا کے سامنے میں ان کو اپنا جو فرمایں بیٹھا ہوں