حق دار فصلِ گُل کے وہی رہ نورد ہیں
جو خاک چھان کر بھی نہ بھوُلے چمن کا نام
اگر چلے ہو مسافت خزاں کے طے کرنے
بھری بہار کا بھی اہتمام کر کے چلو
شب سیہ کے ستارو، مرے قریب رہو
کہ مَیں افق پہ نگار سحر کو دیکھ آؤں
تہذیب کے طاق پر، ہمیشہ
جلتے ہیں چراغ مفلسی کے
اہرمن بن کے بھی دیکھا ہے، کہ انساں کا ضمیر
نوُر ہی نوُر ہے، شعلے کا کہیں نام نہیں