جو درد دیتا ہے وہی دوا بھی کرتا ہے
جو پتھر دل ہو کبھی پگھلا بھی کرتا ہے
نا کر غرور اتنا کہ خود ہی ٹوٹ جایے تو
کہ چاند کو گرہن کبھی لگابھی کرتا ہے
نظر چراتا ہے کوئی رسوائی کے ڈر سے یونہی
الزام یوں کہ بندہ، بے وفا ہوا بھی کرتا ہے
بے وفا کیا سمجھے گا تو عشق زلیخہ کو
سچا عشق ہو گر تو یوسف ملا بھی کرتا ہے
تو اس امید پے گم سم کچھ اس طرح تنویر
کہ بن مانگے خدا سب کچھ دیا بھی کرتا ہے