جو سبز سا رنگ اُن کے ہے آنچل میں نمایاں
ظاہر ہے تکبر میں ہیں ہر بل میں نمایاں
خط ہم نے کتابوں میں جو رکھے تھے وفا کے
وہ دیکھتے شب اُن کو ہیں مشعل میں نمایاں
چہرہ کبھی دکھلا دے وہ گر دشت کو بھی تو
ہو جائے گا صحرا بھی وہ جل تھل میں نمایاں
عامر چلا تھا بننے جو رہبر کبھی ہاتھی
پاؤں پھنسے تھے اس کے ہی دلدل میں نمایاں