جو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
Poet: سیماب اکبرآبادی By: ہارون فضیل, Quettaجو عمر تیری طلب میں گنوائے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
لگاؤ ہے مری تنہائیوں سے فطرت کو
تمام رات ستارے لگائے جاتے ہیں
سمائی جاتی ہیں دل میں وہ کفر بار آنکھیں
یہ بت کدے مرے کعبے پہ چھائے جاتے ہیں
سمجھ حقیر نہ ان زندگی کے لمحوں کو
ارے انہیں سے زمانے بنائے جاتے ہیں
ہیں دل کے داغ بھی کیا دل کے داغ اے سیمابؔ
ٹپک رہے ہیں مگر مسکرائے جاتے ہیں
More Sad Poetry






