جو میری زندگی کا نشان تھا وہ چراغ اب بجھنے کو ہے
میرے ساتھ ساتھ تھا جو چل رہا وہ قافلہ اب رکنے کو ہے
میرے جذبے سارے مر گئے میرے دل میں کوئی امنگ نہیں
جو خواب تھا میری زندگی وہ خواب اب بکنے کو ہے
میری زندگی مجھ پہ بوجھ ہے رہی میرے دل کا روگ ہے
جو بہت گراں تھا مجھے سدا وہ سانس اب رکنے کو ہے
وہ زخم نارسائی جو میری روح تک میں اتر گیا
وہ بدل گیا ناسور میں وہ ناسور اب رسنے کو ہے
مجھے کیا ملا؟ کیا نہیں ملا؟ اب یہ سوچنا بھی فضول ہے
جو وقت تھا تھوڑا زیست کا وہ وقت اب کٹنے کو ہے
میرے ساتھ کوئی چلا نہیں کوئی اپنے جیسا ملا نہیں
بس ایک زندگی کا ہی ساتھ تھا وہ ساتھ اب چھٹنے کو ہے
جسے انتظار میرا ازل سے تھا اور پکارتا تھا مجھے رات دن
اس ویران قبرستان میں وہ قبر اب بسنے کو ہے
کہاں منزلوں کی امید ہو میں تو چند قدم میں ہی تھک گئ
یہ شکستہ حال تھکا جسم کوئی لمحہ اب گر نے کو ہے
میں بھلاؤ ں کس کس فریب کو میں بھلاؤں کس کس عذاب کو
پیش آئینہ تو نہیں مگر پسِ آئینہ اب دکھنے کو ہے
چلو ختم ہوئیں میری مشکلیں اور نجات بھی تم کو ملی
بہت دیر سے جو مقیم تھا وہ آوارہ اب چلنے کو ہے
میرے منتظر تھے بہت دور جو انہیں آج یہ نوید ہو!
انہیں عدم کے اس جہان میں میرا ساتھ اب ملنے کو ہے
مجھے یاد کوئی کیوں رکھے؟ میرے ساتھ جب کوئی چلا نہیں
وہ جو لوح قبر پہ تھا لکھا گیا میرا نام اب مٹنے کو ہے ۔۔۔ !
ڈاکٹر حمیرا اسلام