Add Poetry

جو نازک دلوں پر وار کر تے ہیں

Poet: محمد مسعود By: محمد مسعود, نوٹنگھم یو کے

جو نازک دلوں پر وار کر تے ہیں
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے

یہ نظم ان لو گو ں کے نام ہے
جو دوسرں کی بیٹیاں بیاہ کر لانے کے بعد ان کی قدر نہیں کرتے
اور ان کی ماوں کو دکھوں کے سمندر مں دھکیل دیتے ہیں
اس نظم کا محرک بہت سی ماوں اور
بیٹیو ں کی گھٹی ہوئی سسکیاں ہیں

بہت سی بیٹیاں سسرال میں جیتی ہیں مر مر کے
اور ان کی ماوں کا جیون بسر ہوتا ہے ڈر ڈر کے
انہیں کا حال کہنا ہے ،مجھے خون جگر کر کے
لکھے ہیں شعر یہ مسعود قلم اشکوں میں تر کر کے

ہیں ان کے نام جو نازک دلوں پر وار کر تے ہیں
جو رشتوں کے تقدس کو سدا مسمار کرتے ہیں

میری بیٹی تیرے چہرے پہ کچھ افسردگی سی ہے
ہے پھیکی سی ہنسی تیری اور آنکھوں میں نمی سی ہے
بظا ہر مسکراہٹ ہے ، مگر کچھ ظاہری سی ہے
زبان خاموش لیکن بات کوئی ان کہی سی ہے

نہ شُوخی ہے ، نہ چنچل پن ، نہ چہرے پر اجالا ہے
نگاہوں میں اداسی ہے ، لبوں پر چپ کا تالا ہے

خدا سے التجاء کرتا ہوں یہ سب وہم ہو میرا
میرے دل کو یونہی بے کار اند یشوں نے ہو گھیرا
ترے سسرال میں پیاری ہر ایک ہو قدر دان تیرا
تیرے دل میں ہمیشہ کی طرح خوشیوں کا ہو ڈیرا

مگر آنکھوں مں تیری جب نمی سی دیکھتا ہوں میں
بچا کر تیری نظریں اپنی آنکھیں پو نچھتا ہوں میں

اکیلا بٹھ کر بیتے دنوں کو یاد کر تا ہوں
میں سُونے دل میں یادوں کا نگر آباد کرتا ہوں
اسی حیلے سے تسکینِ دل ناشاد کرتا ہوں
اور اپنے واسطے اک مشغلہ ایجاد کرتا ہوں

تصور میں میرے بکھری تیرے بچپن کی تصویریں
جکڑ لیتی ہیں سوچوں کو گئے لمحوں کی زنجیریں

میری بانہوں میں اے ننھی پری جس روز تو آئی
خدائے پاک کی رحمت کی بدلی گھر پہ تھی چھائی
سعادت تیرے دم سے میں نے باپ ہو نے کی جب پائی
بڑھا رتبہ میرا جنت ماں کے قد موں تلے آئی

تو ایک ننھے فرشتے کی طرح معصوم صورت تھی
کوئی پوچھے میرے دل سے تو کتنی خوب صورت تھی

تیری کلکاریو ں نے سُونے گھر کو زندگی بخشی
میری جاں کیا بتاوُں تو نے مجھ کو کیا خوشی بخشی
چکھا ذائقہ باپ کا مجھ کو تازگی بخشی
میرے جذبوں کو سہلایا مجھے آسودگی بخشی

لہو میں سنسناہٹ تھی رواں اشکوں کا دھارا تھا
مجھے جب تو نے پہلی بار باپ کہہ کر پکا را تھا

وہ تیری توتلی باتیں تیرا فقروں کو دوہرانا
ماں کے سنڈل پہن کر سارے گھر میں گھومتے جانا
ماں کے دوپٹوں کی ساڑی بنانا جھڑکیاں کھانا
کبھی تو مان لینا اور کبھی ہر بات منو انا

بتا سکتا نہیں کیا لطف ان من مانیوں میں تھا
عجب معصومیت کا نور ان نادانیوں میں تھا

وہ تیرا ڈولتے قدموں سے چلنا یاد آتا ہے
مجھے گرنا تیرا گر کر سنبھلنا یاد آتا ہے
کبھی وہ گود مں چڑھنا پھسلنا یاد آتا ہے
کبھی ابو کی بانہوں میں مچلنا یاد آ تا ہے

میری جاں کس قد ر نازوں سے میں نے تجھ کو پالا تھا
بہت نازک تھی تو ہر گام پر تجھ کو سنبھا لا تھا

تیرا اسکول سے آ کر مجھے ہر بات بتلانا
جو ٹیچر نے بنایا ہاتھ پر اسٹار دکھلانا
تیرا پھر شام تک ا س ہاتھ کو دھونے سے کترانا
میرے اصرار پر وہ روٹھ کر کمرے میں چھپ جانا

اچانک آ کے پھر میرے گلے میں جھول جاتی تھی
تیری مدہر ہنسی سن کر ماں ہر دکھ بھول جاتی تھی

بہت دل چسپ دنیا کے مکیں لگنے لگے مجھ کو
کہ روکھے لوگ بھی خندہ جبیں لگنے لگے مجھ کو
مناظر سیر گاہوں کے حسیں لگنے لگے مجھ کو
کہ چڑیا گھر کے بندر دلنشں لگنے لگے مجھ کو

بہت حیران کن اور پر مسرت تھی یہی دنیا
تیرے ہمراہ کتنی خوب صورت تھی یہی دنیا

تیرا گڑیا کی وہ شادی رچانا یاد آتا ہے
وہ رقعے بھج کر مہماں بلانا یاد آتا ہے
بوقت رخصتی رونا رلانا یاد آتا ہے
وہ گڈے والوں کو لڑ کر بھگانا یاد آتا ہے

لڑکپن کی انوکھی شوخیاں میں کس طرح بھولوں
وہ تیرا بھو لپن وہ مستیاں میں کس طرح بھولوں

تو رونق تھی میرے گھر کی میری آنکھوں کی بینائی
تو نغمہ تھی میرے دل کا میرے کانوں کی شنوائی
غرض بیتے کئی موسم جوانی کی بہار آئی
تیرے اندر چھپی ساری لیا قت سامنے لائی

وہ تمغے جیتنا اسناد پانا یاد ہے مجھ کو
تیرا ہر امتحان میں فر سٹ آنا یاد ہے مجھ کو

تیرے کالج کے دن مجھ کو برابر یاد آتے ہیں
گئی راتوں تلک پڑھنے کے منظر یاد آتے ہیں
تیرے بازار کے دن رات چکر یاد آتے ہیں
تیری سب دوستوں کے نام اکثر یاد آتے ہیں

وہ تیرا فون پر سکھیو ں سے پہروں گفتگو کر نا
وہ تر ے قہقہے ، وہ شوخیا ں ، وہ ہا ہا ہو ہو کرنا

پھر آخر ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا مجھ کو
جدائی کا تیری پھر حوصلہ کرنا پڑا مجھ کو
خود اپنے ہا تھ سے تجھ کو الوداع کرنا پڑا مجھ کو
کہوں کیا ماس سے ناخن جدا کرنا پڑا مجھ کو

جدا ہونا ہی بیٹی کا مقدر ہے سو کیا کرتا
یہ سنت ہے پیغمبر کی سو لازم تھا ادا کرتا

کیا تھا جب تجھے رخصت بہت ہی تیری سوگواری تھی
جدائی کی گھڑی شکستہ تیری ماں پہ بھاری تھی
خوشی بھی تھی مگر ہمراہ اس کے بے قراری تھی
نئے رشتے مبارک ہوں دعا ہونٹوں پہ جاری تھی

پر اب تیری اداسی میرے دل پر زخم ِکاری ہے
میرے بس میں نہیں کچھ بھی عجب بے اختیاری ہے

سہا جاتا نہیں ہے مجھ سے اب تیرا غم پنہاں
تجھے ماں نے نو ماہ پیٹ میں رکھا ہے میری جاں
تیری ہر ہر ادا کی خوب میرے دل کو ہے پہچاں
یو نہی رسمی ہنسی سے مجھ کو بہلا نا نہیں آساں

ڈراتی ہے تیری افسردگی میں سو نہں سکتا
ستم اس پر کہ تیرے سامنے میں رو نہں سکتا

تجھے تو غمزدہ لوگوں کو بہلانا بھی آتا تھا
تجھے محفل کی رونق بن کے چھا جانا بھی آتا تھا
سنا کر شاعری جذبو ں کو مہکانا بھی آتا تھا
دلائل دے کے اپنی بات منوانا بھی آتا تھا

تُو بلبل کی طرح وہ چہچہانا بھول بیٹھی ہے
وہ ہنسنا بولنا ، ملنا ملانا بھول بیٹھی ہے

نہ تجھ سے کچھ بھی پوچھے گی نگاہ آشنا میری
تجھے تو علم ہے عادت ہے تسلم و رضا میری
حصار عافیت میں تجھ کو لے لے گی دعا میر ی
خدا ہی میرا مونس ہے سنے گا التجاء میری

دعائے نیم شب کو ہی عطا ہوتی ہں تاثیریں
دل مظلو م کی آہیں تو ساتوں آسماں چیریں

تیرے سسرال میں اے کاش تیری قدر دانی ہو
تیرا شوہر تجھے چاہے تو اس کے دل کی را نی ہو
نہ یاد آئے کبھی میکے کی ایسی شاد مانی ہو
خدا فضل ہو دائم ، خدا کی مہربانی ہو

جو تیرا حال ہے وہ اپنے مولا کو سنا بیٹی
میں تجھ سے کچھ نہ پوچھوں گا مجھے کچھ نہ بتا بیٹی

مجھے معلوم ہے غصے کو تو غم میں سموتی ہے
سلگتے غم سے پھر اشکوں کی اک مالا پروتی ہے
بہانے سے غسل کے تو غسل خانے میں روتی ہے
کبھی تاریکیوں میں رات کی تکیہ بھگوتی ہے

سہام الیل کا نسخہ بہت اکسیر ہے پیاری
بہت پیارا خدا کو نالہ شب گر ہے پیاری

سمٹوں کس طرح خود کو کہ ہر لمحہ بکھرتا ہوں
قدم ہر روز گویا دھار پر خنجر کی دھراتا ہوں
دعائیں شب کو کرتا دن کو ٹھنڈی آہ بھرتا ہوں
میں اک سولی پہ لٹکا ہوں نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں

نصیحت تجھ کو کرتا ہوں کہ رہنا در گذر کر کے
چلی چل اپنی منز ل کی طرف عزم سفر کر کے

بہت سی ماوں کے دل کا یہ حال زار لکھا ہے
پرانا درد ہے پر میں نے پہلی بار لکھا ہے
بہت تفصیل سے حال دلِ بیمار لکھا ہے
اثر اس میں نہیں کوئی تو پھر بے کار لکھا ہے

نصیحت ہے کسی ماں کے شکستہ دل سے مت کھیلو
اور اس کی بے بسی کو ظلم کے بیلن میں مت بیلو

بہت سی بیٹیاں سسرال میں جیتی ہیں مر مر کے
اور ان کی ماوں کا جیو ن بسر ہوتا ہے ڈ ر ڈر کے
انہیں کا حال کہنا ہے مجھے خو نِ جگر کر کے
لکھے ہیں شعر یہ مسعود قلم اشکوں میں تر کر کے

ہیں ان کے نام جو دل کا جہا ں مسما ر کرتے ہیں
لبادہ پا رسائی کا پہن کر وار کرتے ہیں

Rate it:
Views: 1953
03 Aug, 2014
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets