درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا
اک کھنڈر مجھکو عطا کیا کرتا
جس اندھیرے میں ستارے نہ جلے
ایک مٹی کا دیا کیا کرتا
ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رکی
وہ تہی دست دعا کیا کرتا
ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو
اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا
اس کا ہونا ہے مرے ہونے سے
میں نہ ہوتا تو خدا کیا کرتا
تو نے کب مجھ کو دیے میرے حقوق
میں ترا فرض ادا کیا کرتا
ایک دھتکار تو جھولی میں پڑی
تو نہ ہوتا تو گدا کیا کرتا
جو نہ سمجھا کبھی مفہومِ وفا
اپنا وعدہ بھی وفا کیا کرتا
تشنہ لب آئے مگر ڈوب گئے
چشمہء آبِ بقا کیا کرتا
نکہت و رنگ کا پیاسا تھا ندیم
صرف اک لمسِ ہوا کیا کرتا