جو کہانی اُس نے آنکھوں سے بیاں کی تھی
زمیں بنائی تھی ‘ سر پہ آسمان کی تھی
میں نے پھاڑ دیا ہر ورق اُس کہانی کا
اُس نے حالت میری بڑی پریشاں کی تھی
وہیں پہ چھوڑ آیا اُس کی محبت کو میں
شروع اُس نے مجھ سے جہاں کی تھی
محبت تو بس وہ نام ہی کی تھی
محبت بھلا اُس نے ہم سے کہاں کی تھی
اندوہ و تردد قدم قدم رکھا میرے آگے
اِنہی باتوں نے فرقت درمیاں کی تھی
عہدِ وفا بآسانی توڑ گیا وہ ہم سے
بھول گیا کہ اُس نے زباں کی تھی
سوچ سوچ کر اب پچھتا رہا ہوں
زندگی داؤ پہ لگا ئی ‘ مہماں کی تھی