بندش کہاں کی یہ ہے بندش کہ ستارا بھی ڈگماگا گیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں کیا نہ کچھ بنا گیا
حال کی چہل پہل میں ماضی کہاں سے آگیا
یہ میرے نصیب کے ہیں فصلے مستقبل میں بہت کچھ سما گیا
یہ چیس لگی یہ سسکیاں یہ میرے درد کا کمال ہے
جو دیکھا نہ سکی جبین خاص وہ منظر پے خود کچھ آگیا
بھلا کیا سناؤں تجھے میں اب بھلا کیا ہوا تھا وہاں کب
وہ مجھ کو تسلی نہ دے سکا پس درد غم اور کچھ بڑھا گیا
اگر تم نہیں تو اور سہی اور نہیں تو اور سہی
تیری بےوفائی کے چرچے میرا خون جگر کچھ سنا گیا
یہ مثل طور ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں
اک جھلک دیکھا کہ جہاں کا سب کچھ جلا گیا
اک اور بھی سناؤں میں اک بات اور پیرذادے سنو
جو ہے حقیت تیری وہ پریشان دل سب کچھ بتا گیا