جو یہ ہر سو فلک منظر کھڑے ہیں
نہ جانے کس کے پیروں پر کھڑے ہیں
تلا ہے دھوپ برسانے پہ سورج
شجر بھی چھتریاں لے کر کھڑے ہیں
انہیں ناموں سے میں پہچانتا ہوں
مرے دشمن مرے اندر کھڑے ہیں
کسی دن چاند نکلا تھا یہاں سے
اجالے آج تک چھت پر کھڑے ہیں
اجالا سا ہے کچھ کمرے کے اندر
زمین و آسماں باہر کھڑے ہیں