انشاء جی رُکو کوچ نہ کرو یوں شہر کو چھوڑ کے جانا کیا
تم دل کا نگر بسا کے دیکھو یوں دشت میں گھر بسانا کیا
جب رات ڈھلے تم گھر لوٹو اور دستک کو تمہارا ہاتھ بڑھے
اور پائل کی جھنکار گونج اٹھے تو سجنی سے بھلا پھر گھبرانا کیا
دل کے شہر ِخموشاں میں حسرتوں کا مزار بھی ہوتا ہے
واں امید کا دیا روشن کرو یوں چُپ چُپ نیر بہانا کیا
گر حسن کا موتی سچا ہو جسے دیکھ سکو تم پر چُھو نہ سکو
وہ چاند کی مانند دور ہے تم سے پھر اُس سے دل لگانا کیا
دنیا کب جینے دیتی ہے رعنا یہ عاشقوں کو رُسوا کرتی ہے
دیوانوں کی سی نہ بات کرو بنواؤ گے اپنا افسانہ کیا؟