جُرم ہے اتنا فلک پر ہم نے اُڑنا چاہا
گرے جو اُس پر ہم نے سنبھلنا چاہا
کانٹوں سے دوستی ہوئی پھولوں کی چاہ میں
بے وفا لوگوں سے ہم نے وفا کرنا چاہا
اک تیری تلاش میں اتنا دور نکل گئے
راستے میں رہ گئے منزل پر اگرچہ پہنچنا چاہا
ہم کو تو آتا ہی نہ تھا اشک بہانا
رونا پڑا ہمیں اگرچہ ہم نے مسکرانا چاہا
اک بار جو ہم کو بلاتا بیچ سفر میں
لبیک کی صدا گونج اُٹھتی ہم نے تو ساتھ نبھانا چاہا
ممکن ہے یہ کہ اب ملاقات بھی نہ ہو
ہم نے تو ہمیشہ تیری راہوں میں چلنا چاہا