جھلستے چہروں کو یاد رکھوں یا موسموں کا شباب دیکھوں
نظر میں چہروں کی ذردیاں ہوں تو کیسے کھلتے گلاب دیکھوں
نہ دوست دشمن کی کوئی پہچاں ، نہ فرق اپنے پراۓ کا کچھ
ہر ایک چہرہ چھپا ہوا ہے میں کیسے زیرِ نقاب دیکھوں
بدلتے چہروں کو دیکھنے کا ابھی تجربہ نہیں ہے مجھ کو
سدا جو تھا مہربان مجھ پر میں کیسے اُس کا عتاب دیکھوں
ہر اِک قدم پر نئے حوادث ، ہر اِک قدم پر نئی کہانی
ملے جو فُرصت کا کوئی لمحہ تو زندگی کی کتاب دیکھوں
ہے زندگی پھر بھی خوبصورت اگرچہ اس میں نہ کچھ بچا ہو
جو چل پڑو ں تو ہر اِک قدم پر نیۓ نیۓ کھلتے باب دیکھوں
بدلتے لمحوں کے ساتھ شاید بدل رہی ہیں پرانی قدریں
جو نفس کا ہے غلام عذراؔ اُسی کو میں کامیاب دیکھوں