جھوٹی ہی تسلی ہو کچھ دل تو بہل جائے
دھندھلی ہی سہی لیکن اک شمع تو جل جائے
اس موج کی ٹکر سے ساحل بھی لرزتا ہے
کچھ روز تو طوفاں کی آغوش میں پل جائے
مجبوریٔ ساقی بھی اے تشنہ لبو سمجھو
واعظ کا یہ منشا ہے مے خواروں میں چل جائے
اے جلوۂ جانانہ پھر ایسی جھلک دکھلا
حسرت بھی رہے باقی ارماں بھی نکل جائے
اس واسطے چھیڑا ہے پروانوں کا افسانہ
شاید ترے کانوں تک پیغام عمل جائے
مے خانۂ ہستی میں میکش وہی میکش ہے
سنبھلے تو بہک جائے بہکے تو سنبھل جائے
ہم نے تو فناؔ اتنا مفہوم غزل سمجھا
خود زندگیٔ شاعر اشعار میں ڈھل جائے