جھوٹے اس سنسار کے پیچھے بھاگ پڑے
مصنوعی کردار کے پیچھے بھاگ پڑے
ماں کی آنکھیں رستہ تکتی رہتی ہیں
بچے کاروبار کے پیچھے بھاگ پڑے
سورج سر پر آیا تو سب راز کھلے
سائے تک دیوار کے پیچھے بھاگ پڑے
دل والوں کی ریت نرالی دیکھی ہے
یار کی خاطر ہار کے پیچھے بھاگ پڑے
صاحب ہم بے مول ہیں ہم سے دور رہیں
جائیں! کیوں بیکار کے پیچھے بھاگ پڑے
ہم جیسوں کی مرضی کب تک چلنی تھی؟
آخر میں اس یار کے پیچھے بھاگ پڑے
راشد میرے ساتھ ہی رہتے، اچھا تھا
تم تو زندہ کو مار کے پیچھے بھاگ پڑے