جہاں ضروری ہو جیتنا وہاں ہار جاتا ہوں
جہاں تقسیمِ درد ہو وہاں بار بار جاتا ہوں
جہاں بیٹھا ہو طبیب، عشق کی مرض والا
وہاں جان بوج کر، ہو کر بیمار جاتا ہوں
وہ آئے جس دن، کسی کام سے چھَت پر
اُس دن میں چھَت پر، بیشمار جاتا ہوں
اُسے تلاش ہے آجکل، کسی وفادار غلام کی
جہاں بکتے ہیں غلام، میں اُس بازار جاتا ہوں
سُنا ہے مریضِ عشق کو، شفا ملتی ہے قصُور میں
گُل پہن کر گُھنگرو، بُلھے شاہ کے مزار جاتا ہوں