جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
Poet: طارق اقبال حاوی By: طارق اقبال حاوی, Lahoreجہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے
بڑے جو بھی سکھاتے ہیں، سمجھتے تم جو جاٶ گے
کرو استاد کی عزت، تبھی رتبہ بھی پاٶ گے
ہمیشہ کامیابی کی، جو سیڑھی تم کو چڑھنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
کوئی رنجش نہیں رکھنا، نفرت کو مٹاٶ تم
شیرینی گفتگو کر کے، محبت کو پھیلاٶ تم
سبھی سے پیار کرنا ہے، کسی سے بھی نہ لڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
پڑھائی سے ملے فرصت، تو کھیلو اور کُودو تم
رہے گی صحت بھی اچھی، صفائی کو جو رکھو تم
سُستی کو بھگانا ہے، تمہیں چُستی پکڑنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
علم ہر مسئلے کا حل ہے، علم میں ہی تو حکمت ہے
علم سے ملتی ہے منزل، علم سے کچھ نہ دِقت ہے
جلاٶ پھر علم کی شمع، اندھیروں سے کیا ڈرنا ہے
جہاں میں نام ہے کرنا، تمہیں جو آگے بڑھنا ہے
تو پھر من کو لگا کر خوب، تمہیں اچھے سے پڑھنا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






