جی جی کے مری جاں مجھے مرنا ہے ابھی اور
Poet: محمد عسکری عارف By: Mohd Askari Aarif, Lucknowجی جی کے مری جاں مجھے مرنا ہے ابھی اور
پورا یہ سفر زیست کا کرنا ہے ابھی اور
جزبات کی گیرائی میں ڈوبا ہی کہاں ہوں؟
احساس کے دریا میں اترنا ہے ابھی اور
بادل کو ابھی چیرںگیں سورج کی شعاعیں
آلام کی گرمی میں نکھرنا ہے ابھی اور
مانندِ قمر صبح کو میں ڈوب گیا ہوں
خورشید کی مانند ابھرنا ہے ابھی اور
مقتل تو کئی بار سجا میرے لہو سے
ہاں مجھکو تہِ تیغ سنورنا ہے ابھی اور
وحشت ہے بیاباں ہے کٹھن راہگزر ہے
عارف کو سرِ راہ گزرنا ہے ابھی اور
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






