جی چاہتا ہے کچھ کر جاؤں میں

Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrsburg pa usa

جی چاہتا ہے کچھ کر جاؤں میں
بھٹکا ہوا دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں میں

اسرار تھا اسے ہر راز سینے میں دفن کر دوں
ضد تھی خوشبو دل کی گھر گھر جا کے بکھر جاؤں میں

کیا عجب سا سلسلہ آنکھوں سے آنکھوں کو ہوا
نظر آئیں وہ ہی جدھر جدھر جاؤں میں

اے ہوا ہوں دیا میں تھک کے بجھ جاؤں گا خود
پر بجھتے بجھتے آرزو ہے سحر کر جاؤں میں

میں نے کب حنا اور پھولوں کی دوستی چاہی تھی
پڑے گرد تیری مہکوں اور سنور جاؤں میں

پہلے برسات کی تمنا مجھ سے کرتا تھا قلزم وہ شخص
خواہش ہے اب اس کی ابر بن کے گزر جاؤں میں

Rate it:
Views: 488
03 Oct, 2010