جی چاہتا ہے کچھ کر جاؤں میں
بھٹکا ہوا دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں میں
اسرار تھا اسے ہر راز سینے میں دفن کر دوں
ضد تھی خوشبو دل کی گھر گھر جا کے بکھر جاؤں میں
کیا عجب سا سلسلہ آنکھوں سے آنکھوں کو ہوا
نظر آئیں وہ ہی جدھر جدھر جاؤں میں
اے ہوا ہوں دیا میں تھک کے بجھ جاؤں گا خود
پر بجھتے بجھتے آرزو ہے سحر کر جاؤں میں
میں نے کب حنا اور پھولوں کی دوستی چاہی تھی
پڑے گرد تیری مہکوں اور سنور جاؤں میں
پہلے برسات کی تمنا مجھ سے کرتا تھا قلزم وہ شخص
خواہش ہے اب اس کی ابر بن کے گزر جاؤں میں