زندگی الجھی ہے ایسے الجھنوں کی قید میں
جیسے اک مظلوم انساں دشمنوں کی قید میں
ہیں رواجوں میں گھری سہمی ہوئی سی لڑکیاں
جس طرح معصوم پنچھی ساحروں کی قید میں
جانے کب ویران گلشن میں بہاریں آئیں گی
بارشِ رحمت ہے اب تک بادلوں کی قید میں
موت دے آزاد کر دے اب مجھے میرے خدا
زندگی کاٹی ہے اب تک بس غموں کی قید میں
دو دوانے پھر ہوٸے قربان راہِ عشق میں
پھر محبت مر گٸی ان سرحدوں کی قید میں
نرم و نازک تتلیوں کو دیکھ کر لگتا ہے ٰ یوں
رنگ ہیں قوسِ قزح کے تتلیوں کی قید میں
دے رہے ہیں آپ گمراہی کو آزادی کا نام
خوش ہوں میں خود ساختہ پابندیوں کی قید میں
اے یزیدوں بچ نہیں سکتے خدا کے قہر سے
حضرتِ زینب یہ بولیں کافروں کی قید میں
آج ہم بھی آ گئے وشمہ تو کاہے کا ملال
جانے کتنے سوگئے ان تربتوں کی قید میں