محبت کے بتوں کو پاش پاش کرنا سیکھ لیا ہے اس دنیاء فریب میں تنہا رہنا سیکھ لیا ہے وقت کی گہرایوں سے ایسے زخم ملے کہ ھم نے بھی اب سے چپ رہنا سیکھ لیا ہے پتھر ذات کہوں یا پھر کم ظرف اس کو ... کہ جس سے میں نے اپنے قدموں پہ چلنا سیکھ لیا ہے