مجھ میں جینے کی سکت اب باقی نہیں
بوجھ اور اُٹھا پاوَں ایسی خواہش اب باقی نہیں
جس کے ہونے سے تھی قائم دنیا میری
وقت پلٹا رشتے اُلجھے نسبت اُن سے اب باقی نہیں
اب بکھروں یا سمٹوں کون ہامی اپنا
دنیا کی رغبت جینے کی تمنا اب باقی نہیں
بگڑی کچھ ایسے اُن سے دور ہو گئے وہ مجھ سے
وقت کی ایسی ضرب لگی پھر سے اُٹھنے کی ہمت اب باقی نہیں
ہر طرف اندھیرا سا حائل میں سہما سا گھم سم
موت کی آندھی ہے شاملِ حال اور کچھ اب باقی نہیں
ملن کی آس میں ننگے پاوَں چلا بہت دور تلک
اب آس ہی روٹھ چکی مسافت بھی تواب باقی نہیں
سسک سسک کے دم ٹوٹ رہا ہے شایداب جانا ہوگا
نہ کوئی ہمدم ہے نہ ہی ہمکلام رُکنے کی حسرت اب باقی نہیں