یہ حالِ دِل کس کؤ سناؤں
کٰیسے میں نا امیدی کے دیے بجھاوَں
سنانے کو دکھ بےشمار ھیں
زندگی کے کتنے روپوں سے پردہ ھٹاؤں
میں تو خود پریشاں زندگی سے
دوسروں کو کیسے آس و امید دلاؤں
ہر اپنا بھی تو اب پرایا ہو گیا
کس کے کاندھے کو رونے کی خاٰطر اپنا بناؤں
اپنوں نے ہی دکھ بے شمار دیے
اب کہاں گنجائش ہے کہ پراؤں کو آزماؤں
ہر شخص تو خود غرض ہے
کس کو قابلِ اعتبار بناؤں
یہ لوگ تو خوشی میں بھی شرٰیک نہیں ہوتے
سوچتی ہوں جنازے پر کس کس کو بلاؤں
ہر روز نیا روپ دھارتی ہے زندگی
اتنی الجھن میں اب کیا کیا سلجھاؤں
درد دینے والے ہی ہوں جب اپنے شکیلا
تو کس سے کہیں ‘‘درد ہے ذرا مرہم لگاؤ‘‘