ساحل سمندر کشتیاں ڈوب جانے میں اک وقت لگتا ہے
حادثہ، حادثہ ہوتا ہے حادثہ بھلانے میں اک وقت لگتا ہے
اک فسانہ ان کہا سا رہا تمام عمر میرے دل میں
محض کہانی کی طرح ہو گئی ہوں کہانی کو پڑھنے میں اک وقت لگتا ہے
زندگی ڈگمگاتی کشتی کی طرح بہہ رہی ہے میری
موت ہے ساحل میرا اور اس ساحل تک جانے میں اک وقت لگتا ہے
چاند نکلا تو ہے پر بادلوں کا حجاب اوڑھے
کبھی پردہ کبھی جلوہ یہ وقت سمجھنے میں اک وقت لگتا ہے
حال دل بیاں کر دیا میں نے نگاہوں سے
شروع کیسے کرتی لب سے لبوں کو ہچکچانے میں اک وقت لگتا ہے