حال شکستہ جب سُناتے ہیں
تو گزرے لمہے یاد آتے ہیں
جب اندھروں سے ڈر لگتا ہے
تو ہم بھی دیا جلاتے ہیں
ہر کوئی دردِ ہجر بیان کرتا ہے
یوں ہی ہم محفل سجاتے ہیں
تنہائی کی ان راتوں میں
رنج کے سائے ستاتے ہیں
یہ کیسا درد ہے ارسلؔان
کہ اشک بے قابو ہو جاتے ہیں