حجاب میں چھپی ہے دنیا کی حقیقت کہیں
پوشیدہ ہے جو، وہی ہے اصل معرفت کہیں
بے نقاب ہو جو چہرہ، اُس میں چُھپا ہے دھوکہ
عقل کو سمجھ لے وہی، جو پڑھے رازِ حقیقت کہیں
روح کا ہے یہ جسم ،حجابِ دنیا کے سنگ
جو سمجھے دل کی بات، بنے وہی رہبرِ ہدایت کہیں
حجابوں کے پیچھے چھپی ہے وہ ذاتِ برتر
جو نظر آتی ہے کبھی، چمکتی ہوئی تابندگی کہیں
عالمِ ظاہری میں بھی چھپا ہے عالمِ باطن
علم کی اصل روشنی، ہے پردہ داری کے ورق میں کہیں
یہ جو نقاب اوڑھ کے سچ کو چھپایا گیا ہے،
کبھی وہ پردے بھی چاک ہوں، یہی ہے قیامت کہیں
قلم اگر بغاوت کرے، تو پردے لرزتے ہیں،
حجاب کی تحریر میں ہے صداۓ قیادت کہیں
یہ حجاب صرف عورت کا مقدر ہی نہیں،
ہر سوال، ہر خیال پہ ہے کوئی شریعت کہیں
پردے اُٹھیں تو جاگے ضمیر کے آئینے، شاکرہ
تبھی بنے گا آدم، ورنہ ہے محض حکایت کہیں