حد نظر سے دور ہے گرد و غبار کارواں
منزل پہ کیسے پہچوں میں جو بن میں ہوں یہاں
جو ہمسفر تھے میرے اور آشنا بھی تھے
وہ چھوڑ کر تنہا مجھے خود جا رہے وہاں
راہیں بھی اجنبی میری منزل بھی دور ہے
جاؤں گا اس قفس سے نکل کر میں اب کہاں
اب تو ہے آرزو میری رہبر کوئی ایسا ملے
جو آشنا نگر سے ہو مجھے جانا ہے جہاں
یہ ظلم یہ ستم یہ آہ و فغاں کے قصے
جو رازدان کوئی ملے اس پر کروں بیان
ویران ہے چمن اب اور اڑ چکے ہیں پنچھی
کس آس پہ تو زریں بیٹھا ہے اب یہاں