بادل اُمڈے ہیں۔آگ برسے گی
باغ مہکے ہیں۔۔زاغ بولیں گے
٭
یہ ترا تصّرفِ حُسن ہے کہ مرا غرورِ نیاز ہے
تری جستجو پہ بھی فخر ہے، تری ہمرہی پہ بھی ناز ہے
٭
کیا جانے کیا اثر تھا شعورِ گناہ میں
تارے چمک اُٹھے تری چشمِ سیاہ میں
٭
اُمڈی ہیں گھٹائیں ارتقا کی
برسیں گے ستارے آسماں سے
٭
ندیمؔ، شعر فقط پر توِ حیات نہیں
حدیثِ ذات بھی، رودادِ کائنات بھی ہے