حسرتوں میں تمّنا اُتر جاتی
گر زندگی میرے ہاں ٹھہر جاتی
ہر رات ہے جیتی شہنشاہ ہو کر
ہر صبح ہے ہنگاموں میں مر جاتی
اُجاڑ چلی ہے ہوا میرا گھر
دیکھئے اب ہے کب کدھر جاتی
سمیٹتے ہیں جب بھی چاہت اپنی
جانے کیونکر ہے وہ بکھر جاتی
ویرانہ ہی ویرانہ ہے دکھایٔی دیتا
جہاں تلک ہے میری نظر جاتی
ہر غم ہے میرے گھرآتا
ہر خوشی دروازے سے گزر جاتی
کیا مانگیں گے ہم بے سہارے
ہر بار ہے دُعا بے اثر جاتی