حسرتیں ہیں اور دل ناکام ہے
یہ محبت کا مری انجام ہے
کوئی غیبت ہے ، نہ یہ دشنام ہے
شیخ بس اک ناصح ناکام ہے
تلخیوں معں بھی چھپی ہیں مستیاں
“ پیجئے تو زندگی اک جام ہے “
کن گناہوں کی سزا ہے یا خدا
بستئ تو حید میں کہرام ہے
بن گئے ہیں وہ مسیحا قوم کے
جن کے سر پر قتل کا الزام ہے
منتظر ہیں واں پہ بھی منکر نکیر
مر بھی جاؤں تو کہاں آرام ہے
مدح خوان حسن ہیں یاں اور بھی
کیوں ‘ حسن ‘ ہی مو رد الزام ہے