حسن کی بارگاہ میں رکھئے
دل کو ان کی نگاہ میں رکھئے
حوصلی ان کی چاہ میں رکھئے
وضع داری نباہ میں رکھئے
ان کے کوچے کی خاک ہے اکسیر
چومئے ، پھر کلاہ میں رکھئے
جو ہمیشہ رہیں شریک سفر
ساتھ ایسوں کو راہ میں رکھئے
چھوڑیئے بھی مہ و نجوم کی بات
ان کا چہرہ نگاہ میں رکھئے
مر ہی جائیں جو ہم کو مرنا ہے
کیوں انہیں اشتباہ میں رکھئے
ہجر کی تیرگی سے باز آیا
اس کو زلف سیاہ میں رکھئے
جو خدا کی پناہ میں ہیں نصیر
خود کو ان کی پناہ میں رکھئے