امنگیں دل میں لہرائیں فضا کیسی سہانی ہے
ہے کوئی خواب یہ وادی یا جنت کی نشانی ہے
سنائی دے رہی ہے پربتوں سے ساز کی آواز
ترنم سے جو گاتی ہے وہ جھرنوں کی روانی ہے
جو آیا میں چمن میں تو سنائے گیت پھولوں نے
مہکتی ہیں ہوائیں ہر طرف کیا شادمانی ہے
نظر آتا ہے ہر سو نور برفیلے پہاڑوں پر
یہ حسن دل کشا میرے خدا کی مہربانی ہے
یہ پیڑوں سے گلے ملتی ہوئی سورج کی تابانی
مجھے محسوس ہوتا ہے یہیں تو زندگانی ہے
یہ موسم ،یہ سماں ، یہ حسن، یہ قدرٹ کی رنگینی
مری ان سے نئی یاری نہیں برسوں پرانی ہے
بہاریں یوں ہی مہکاتی رہیں اس کو سدا زاہد
مگر افسوس کہ وادی کا سارا حسن فانی ہے