حشر کے خوف جانے کہاں رہ گئے
بن کے دل وسوسوں کے مکاں رہ گئے
دل کے نابین دیدار کر نہ سکے
ہر طرف تیرے جلوے عیاں رہ گئے
پاسباں تو فقط اپنی دھن میں چلے
اور پیچھے بہت کارواں رہ گئے
آتشِ نفرت و ضد دہکتی رہی
اور جلتے کئی آشیاں رہ گئے
پھول بازار میں لا کے بیچے گئے
سر جھکاۓ کھڑے باغباں رہ گئے
پھر کیوں تقدیر نے روبرو کر دیا
جب فقط فاصلے درمیاں رہ گئے
گھپ اندھیرا ہوا اُس کے جب ہر طرف
اس نے پوچھا کہ دیپک کہاں رہ گئے