تمھارے کچھ نہیں تھے پھر بھی تم پر حق تو رکھتے تھے
بہت روٹھے مگر ملنے کی کوئی شق تو رکھتے تھے
ہزاروں بار ہم نے تم پہ اپنا حق جتایا تھا
بہت بدنام تھیں پھر بھی تمہں اپنا بنایا تھا
مگر یہ کیا کیا تم نے کہ سب کچھ لوٹ کر جانم
اخیری داو کے پتوں پر اپنا حق جتا ڈالا
کہ جییسے بادلوں کے بیچ سب کچھ ہار کر اپنا
چکو ری نے فلک کے چاند کو اپنا بنا ڈالا
نہ اب میں چاند ہوں تیرا نہ تو میری چکوری ہے
بس اتنا جان لے اسِ شبَ ہی میری سینہ زوری ہے
سحر کل کی نہ جانے کتنے ہی دل پھر اجاڑے گی
چکوری چاند پر پہلے کی طرح حق جمالے گی
سہانی زندگی کے خواب کو لے کر کوئی لڑکی
اخیری داو کے پتوں پر اپنا حق جتا لے گی
کہانی یہ یونہی چلتی رہے گی روزِ محشر تک
یہاں تک کہ لحد اک دن ہمیں مہماں بنا لے گی