اہل دُنیا سے محبت نہیں مانگی میں نے
مر گیا پھر بھی سہولت نہیں مانگی میں نے
صرف چاہا ہے تیرے دل کی تمنا ہونا
اپنے مالک سے حکومت نہیں مانگی میں نے
میرا حق ہے کہ مجھے ٹوٹ کے چاہا جائے
اس لیے تجھ سے محبت نہیں مانگی میں نے
تیری آنکھوں میں اُمڈتے ہوئے آنسو کیا ہیں
صرف پُوچھا ہے وضاحت نہیں مانگی میں نے
تم اَنا زاد! تو سچ مچ کے خدا بن بیٹھے
تم سے تو بھیک میں عزت نہیں مانگی میں نے
کیوں" قمر" مجھ سے خفا ہوتی ہے ظالم دُنیا
حق ہی مانگا ہے رعایت نہیں مانگی میں نے