حل طلب سارے سوالات گلہ کرتے ہیں
جو رہے دل میں جوابات گلہ کرتے ہیں
کیوں نہ محسوس کیا عشق میں درد دنیا
مجھ سے اب میرے خیالات گلہ کرتے ہیں
ہم بھلا دیتے ہیں ہر ساز شکستہ کی صدا
بھولے بسرے ہوئے نغمات گلہ کرتے ہیں
تو مرے پاس ہے اب پھول میں خوشبو کی طرح
پھر بھی کیوں وصل کے لمحات گلہ کرتے ہیں
ہم جنھیں چھوڑ کے آئے ہیں نئی دنیا میں
اب وہ بچپن کے مکانات گلہ کرتے ہیں
کس نے کھولے ہیں مصائب کے دریچے زاہد
آج ہر شہر کے حالا ت گلہ کرتے ہیں