حوا کی بیٹی کے نام
Poet: Ibn.e.Raza By: Ibn.e.Raza, Islamabadحوا کی بیٹی کے نام
( میرے گھر کی نئی رحمت ، میری بیٹی مُسِفرہ صبا افسر کی نذر)
کھلی جب آنکھ اس دشتِ فانی میں
تجھے بنتِ حوا کے نام سے نوازہ گیا
رحمتوں کی نوید بن کر
تم نے اس جہاں میں قدم رکھا
خدا نے اپنی جنت
تمھارے قدموں پہ نچھاور کر دی
تمھاری ہستی نے
کائنات میں قوس ِقزا بھر دی
قدر ت نے تجھے کئی روپ دئے
حسن و نزاکت کو تیری باندھی بنایا
تو نے خود کو اس جہاں میں
سب سے متعبر پایا
یہ اور بات ہے کے ابن آدم نے
تیر ی قدر نہ کی زرا سی بھی
تجھے ہر موڑ پہ گرایا
ستایا ، تڑپایا، جلایا
تمھارے حصے کے حق سے بھی
تم کو محروم رکھا
خود کو ظالم
تجھ کو مظلوم رکھا
روا تجھ سے کارِ مذموم رکھا
تمھارے جذبوں
تمھارے خوابوں کو روندڈالا
تمھاری عصمت کو سرِ بازار
بارہا اچھالا
اپنی تاریک سوچوں سے
مٹا دیا تیرے نور کا ہالہ
ایک ہی گھر کے سگے رشتے
بھول بیٹھے تمھیں تکبر میں
زندگی بے سکوں کردی
تیری ،تیرے ہی گھر میں
زندگی نے جےوت سبھی بدلے
تجھ سے ہی لینے کی ٹھانی ہو
جیسے تجھ سےاُسے کوئی
گہری عداوت پرانی ہو
جیسے تیری ذات ہی سب کی
راجدھانی ہو
مگر یہ سب اپنی جگہ
حقیقت تو کچھ اور ہی ہے
تمھاری اذیتوں میں جہاں
ابنِ آدم ہے سزوار
بنت حوا بھی وہیں
کہیں نہ کہیں ٹھہری ہے حصے دار
یہ امرِ قدرت بھی نہیں
سچ یا حقیقت بھی نہیں
کہ تم خود ہی نہ پہچانو
اپنا مقام و مرتبہ
کہ ڈھونڈنے سے تو
مل جاتا ہے خدا
اپنی ہی ذات کی تذلیل کرکے
خود کو پستی میں مت دھکیلو
زندگی کے سبھی سکھ دکھ
عزم و ہمت سے جھیلو
اپنی ہستی سےیوں
گریزاں نہیں ہوتے
سُکھ پھولوں کی طرح باغوں میں
آویزاں نہیں ہوتے
تمھاری عزت تمھارا وقار
تمھارے ہی ہاتھوں میں ہے
تمھاری منزل تمھارے رستے
تمھارےہی خوابوں میں ہے
قدرت کی جو عنائت تم پہ ہے
اور کوئی بھی اُس کا حق دار نہیں
تم تو رحمت ہو ہر آنگن کی
کسی کی قرض دارنہیں
اپنی ہمت اپنے حوصلے سے
سبھی رستوں کو ہموار کرو
اپنی حیاتِ انمول سے
عشق کرو ، پیار کرو
زمانے کی بے حسی کا
غم منانے سے بہتر ہے
خودی کے نور سے
شبِ ظلمت مٹا ڈالو
خود پہ ناز کرو
خود کو ایسا بنا ڈالو
نگاہ مستی میں وفا ڈالو
تم کون ہو کیا ہو
زمانے کو بتا ڈالو
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






