حوصلے اور ضبط کا امتحان ہے
عبادت سے محبت کا امکان ہے
بہت شور کرتا ہے سینے میں کوئی
پنجر ہے میرا یا کوئی زندان ہے
سر میں خاک ڈالے برہنہ پا لئے
جیسے چند لمحوں کا مہمان ہے
ڈھونڈو تو کہیں ملتا ہی نہیں
کہنے کو تو ہر کوئی انسان ہے
وہ بھی اپنی دکھی داستاں چھوڑ گیا
وجود میرا درد و الم کا مکان ہے
لغزشیں قدموں سے لپٹی ہوئی ہیں
نامعلوم راستوں کا راہی نگہبان ہے