تلاش معنویت کے سب لمحے
صدیاں ڈکار گئیں
جھتڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر
اس کنارے کو چھو نہ سکا
تاسف کے دو آنسو
کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے
کیا ہو پاتا کہ شب کشف
دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی
صبح دھیان
نان نارسا کی نذر ہوئی
شاعر کا کہا
بےحواسی کا ہم نوا ہوا
دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا
وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں
قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں
گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا
ضمیر بھی چاندی میں تل گیا
مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی
مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا
درویش کے حواس بیدار نقطے
ترقی کا ڈرم نگل گیا
نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا
آخر کب تک یتیم جیون
حیات کے برزخ میں
شناخت کے لیے بھٹکتا رہے