کیا یاد تجھے بھی آتے ہیں
اَک لڑکی تھی اکَ لڑکا تھا
دکھ و الم تو دور تھے لیکن کب تک
انہیں معلوم نہ تھا
تقدیر بھی اُن کی گھات میں تھی
انسان تو ایک کھلونا ہے تقدیر کے ظالم ہاتھوں میں
تقدیر تو خنداں رہتی ہے انسان کی بے بس سوچوں پر
اُلفت میں مگن رہنے والے
انجان سی راہوں کے راہی
اس بات سے وُہ لاعلم رہے اور
تقدیر نے کاری وار کیا
لڑکے کو اُس کے گھر والے
اکثر یہ کہتے رہتے تھے
کہ دوسرے مُلک چلا جائے
تعلیم اور حاصل کر آئے
یہ اُن کا منصوبہ تھا
یا کوئی گہری سازش تھی
وُہ اپنی دُھن کے پکے تھے
لڑکا پس و پیش کرتا تھا
وُہ جنت چھوڑ کے کیوں جاتا
کیسے وُہ بہاریں تج دیتا
کیا یاد تجھے بھی آتے ہیں
اَک لڑکی تھی اَک لڑکا تھا