یادیں کچھ بیتے لمحوں کی
کیا تُجھ کو بھی تڑپاتیں ہیں
معصوم سے کھیل لڑکپن کے
اور سُندر خواب جوانی کے
کیا تُجھ کو بھی یاد آتے ہیں
وُہ دھول اُڑاتی گلیوں میں
وُہ گاؤں کی پگڈنڈیوں پر
اُن اُونچے نیچے رستوں پر
جو بھاگے داڑے پھرتے تھے
اور کھیتوں میں کھلیانوں میں
جو ننگے پاؤں چلتے تھے
اَ ک لڑکی تھی اَک لڑکا تھا
کیا تجھ کو بھی یاد ُ آتے ہیں
گرما کی گرم دوپہروں ہیں
پیپل کی گھنیری چھاؤں تلے
تالاب کنارے بیٹھ کے وُہ
اُس ٹھنڈے ٹھنڈے پانی پر
کچھ عکس اُبھارا کرتے تھے
پھر باتیں کرتے رہتے تھے
اور دھول اٹے پیروں کو وُہ
پانی میں جھلا کر دھوتے تھے
اور جھاگ اُڑایا کرتے تھے
کیا تجھ کو بھی یاد آتے ہیں
اَک لڑکی تھی اَک لڑکا تھا