حیرت کی ایک تصویر تھی سامنے
يا میری ہی کوئی تحریر تھی سامنے
اگر چاہتا تو اِک پل میں ہی مٹا دیتا
خاموشی کی ہی سی تو لکیر تھی سامنے
دو قدم جو چلتا تو پا لیتا میں اسے
کہ مدت تک تو کھڑی تقدیر تھی سامنے
جو میں چاہتا اُسے وہ پیغام مل جاتا خرّم
میں کہتا وہ لکھتی کہ اُسکی سفیر تھی سامنے