حیرت تو یہ ہے

Poet: maqsood hasni By: maqsood hasni, kasur

موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ
مہتاب بادلوں میں جا چھپا
اندھیرا چھا گیا
پریت پرندہ
ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا
اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا
کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا
کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا
بادل چھٹنے کو تھے کہ
افق لہو اگلنے لگا
دو بم ادھر دو ادھر گرے
پھر تو
ہر سو دھواں ہی دھواں تھا
چہرے جب دھول میں اٹے تو
ظلم کا اندھیر مچ گیا
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا
کہنے لگا سنو سنو
دامن سب سمو لیتا ہے
اپنے دامن سے چہرے صاف کرو
شاید کہ تم میں سے کوئی
ابھی یتیم نہ ہوا ہو
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے
من کے موسم دبوچ لیتا ہے
کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو
حیرت تو یہ ہے
موسم گل کا سب کو انتظار ہے
گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے
اوروں سے کہے جاتا ہے
چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
 

Rate it:
Views: 551
09 Aug, 2014
More Life Poetry