حیرت تو یہ ہے
Poet: maqsood hasni By: maqsood hasni, kasurموسم گل ابھی محو کلام تھا کہ
مہتاب بادلوں میں جا چھپا
اندھیرا چھا گیا
پریت پرندہ
ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا
اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا
کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا
کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا
بادل چھٹنے کو تھے کہ
افق لہو اگلنے لگا
دو بم ادھر دو ادھر گرے
پھر تو
ہر سو دھواں ہی دھواں تھا
چہرے جب دھول میں اٹے تو
ظلم کا اندھیر مچ گیا
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا
کہنے لگا سنو سنو
دامن سب سمو لیتا ہے
اپنے دامن سے چہرے صاف کرو
شاید کہ تم میں سے کوئی
ابھی یتیم نہ ہوا ہو
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے
من کے موسم دبوچ لیتا ہے
کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو
حیرت تو یہ ہے
موسم گل کا سب کو انتظار ہے
گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے
اوروں سے کہے جاتا ہے
چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






