خاموش بیٹھے تھے وہ غموں سے چور بیٹھے تھے
تاریک راہوں کے پنچھی نہ اڑنے پہ مجبور بیٹھے تھے
حال دل اپنا بتاتے یا نہ بتاتےمگر
ان کی اپنی ادا تھی وہ پریشان ضرور بیٹھے تھے
بچھڑ گیا تھا شاید ان کا بھی کوئی ہمسفر
اس لئے وہ دردوں سے معمور بیٹھے تھے
نہ تھی روانگی ان کے ذہن میں کی تدبیر کی
بس منتظر تھے وہ جس سے دور بیٹھے تھے
ہر کسی کی کسی سے رفاقت ہوتی ہے خالد
اس لئے وہ لے کر دوستی کے دستور بیٹھے تھے